آپ کو نو سالہ طیبہ یاد ہے؟
وہی جو جج صاحب کے گھر کام کرتی تھی، جس پر بدترین تشدد کیا گیا. جسے سخت سردی میں ٹھنڈے اندھیرے سٹور روم میں بند کر دیا گیا تھا، وہی جس سے دن بھر کام کروایا جاتا اور رات کو ہوس پوری کی جاتی تھی.. وہی طیبہ جس کے جعلی ماں باپ نے عدالت میں دو دن میں صلح نامہ جمع کروا دیا تھا..
آپ کو چھے سالہ طوبیٰ بھی یاد نہیں ہو گی!
وہی جسے کراچی میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، زیادتی کے بعد جس کی گردن اور ہاتھ کی نسیں بھی کاٹ دی گئی تھیں. وہی طوبیٰ جس کی زیادتی کے بعد آپ لوگ پاکستان پریمئیر لیگ میں مشغول ہو گئے تھے..
آپ کو آٹھ سالہ عمران بھی یاد نہیں ہو گا!
وہی جسے فیصل آباد کے ایک مدرسے میں اجتماعی زیادتی کے بعد برہنہ حالت میں تیسری منزل سے نیچے پھینک دیا گیا تھا، جس کی لاش پانچ گھنٹے گلی میں پڑی رہی تھی.
اگر آپ کو طیبہ اور طوبیٰ یاد نہیں ہیں، اگر آپ کو عمران یاد نہیں ہے تو پھر آپ کو قصور کی اس بچی کا نام بتانے کا کیا فائدہ جسے پانچ دن پہلے اغوا کیا گیا اور زیادتی کے بعد بس اڈے کے پیچھے کچرے میں پھینک دیا گیا. آپ طیبہ کے مجرم جج اور اس کی بیوی کو سزا نہیں دلوا سکے، آپ طوبیٰ کے مجرموں کو گرفتار نہیں کر سکے، آپ ان مولویوں کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے جنہوں نے عمران سے زیادتی کی. تو پھر آپ سات سالہ زینب کو بھی انصاف نہیں دے سکتے. دو دن بعد اس بچی کو بھی بھلا دیا جائے گا، پھر کوئی کرکٹ سیریز ہو گی، کوئی سیاسی جلسہ ہو گا اور ہم سب کچھ بھول کر ناچنے گانے لگیں گے.
کچھ بھی نہیں ہو گا۔
1981 میں لاہور باغبانپورہ تھانے کی حدود میں پپو نامی بچہ اغوا ہوا تھا۔ بعد میں اسکی لاش ریلوے کے تالاب سے ملی تھی۔ ضیاءالحق کا مارشل لا تھا۔ قاتل گرفتار ہوئے۔ ٹکٹکی پر لٹکانے کا حکم فوجی عدالت سے جاری ہوا۔ تین دن بعد ٹکٹکی وہاں لگی جہاں آجکل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے۔ پورے لاہور نے دیکھا پھانسی کیسے لگتی ہے۔ چاروں اغواکار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے۔ آرڈر تھا کہ لاشیں غروبِ آفتاب کے بعد اتاری جائیں گی۔
اسکے بعد دس سال کوئی بچہ اغوا اور قتل نہیں ہوا۔ پھر جمہوریت بحال ہو گئی اور عصمتوں کے لٹیرے، قاتل، اغواکار بردہ فروش اور چور ڈکیت سیاستدانوں کی چھتری کے نیچے آگئے۔ پولیس کی سرپرستی میں منظم جرائم ہونے لگے۔
جمہوریت زندہ باد۔
-
0 Comments