لاہور (hot line plus news network) آپ جو انٹرنیٹ دن رات چلاتے ہیں، اس کے متعلق کتنی معلومات ہیں آپ کو؟؟؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جتنا انٹرنیٹ آپ روز استعمال کرتے ہیں وہ کل انٹرنیٹ کا صرف 4 فیصد ہے۔۔۔؟ جی ہاں! اور اسے Surface Web یا lightweb کہتے ہیں۔۔۔!
اس کے بعد نمبر آتا ھے Deep Web کا، جو کل انٹرنیٹ کا باقی 96% ہے۔۔۔! یہ آپ کے استعمال میں موجود Surface Webسے 5000 ہزار گنا بڑا اور وسیع ہے، اس میں Surface Web استعمال کرنے والے ہر شخص، ہر ادارے اور ہر حکومت کی ہر قسم کی معلومات جمع ہیں۔۔۔! لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی!
اس کے بعد نمبر آتا ھے Deep Web کا، جو کل انٹرنیٹ کا باقی 96% ہے۔۔۔! یہ آپ کے استعمال میں موجود Surface Webسے 5000 ہزار گنا بڑا اور وسیع ہے، اس میں Surface Web استعمال کرنے والے ہر شخص، ہر ادارے اور ہر حکومت کی ہر قسم کی معلومات جمع ہیں۔۔۔! لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی!
more news intertanmant story video go on secbcribe youtube channel hot line plus news network ..click me
کیونکہ Deep Web کا ایک حصہ ہے جو تمام انٹرنیٹ کا تھل ہے، وہ Dark web یا Black Netکہلاتا ہے۔۔۔! کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنا حجم رکھتا ہے، مگر یہاں دنیا کا ہر غیر قانونی و غیر انسانی کام ہوتا ہے۔۔۔! منشیات، اسلحہ اور عورت کی خرید و فروخت سے لے کر ایک انسان کو ذبح کر کے گوشت کھانے تک Deep Webعام براؤزر کے ذریعہ باآسانی کھل سکتی ہے مگر اسے کوئی سرچ نہیں کر سکتا۔
اس کے کھلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ جس نے ڈیپ ویب کی وہ سائٹ بنائی ہے اس کا لنک جو چند الٹے سیدھے کوڈ نما الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اسے کسی بھی براﺅذر میں ڈال کر انٹر کردیا جائے تو سائٹ کھل جاتی ہے۔ جبکہ Dark Web کسی بھی عام براﺅذر سے کبھی بھی نہیں کھلتی ماسوائے ٹور پراجیکٹ نامی براﺅذر کے جس کی سائٹس کی ایکسٹینشنز onion ہوتی ہیں جو صرف ٹور براﺅزر پر ہی کھلتی ہے۔ اس کا بھی سائٹ لنک عجیب الٹے سیدھے کوڈ نما نمبرز پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا سائٹ کوڈ معلوم ہو تب ہی کھلتی ہے، مگر Tor کے کچھ اپنے سرچ انجن ہیں جن پر مطلوبہ سائٹ یا مطلوبہ ویڈیوز یا مطلوبہ مواد کو گوگل کی طرح سرچ کرکے باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اسی میں مزید ایک قدم آگے Red Roomsہے۔ جہاں بند کمروں میں دنیا کا بدترین تشدد دکھایا جاتا ہے۔جیسے زندہ انسانوں کی کھال اتارنا، آنکھیں نکالنا، ناک، کان، آلہ تناسل وغیرہ کاٹنا، اس میں سلاخیں گھسانا وغیرہ وغیرہ۔اس سب کے بعد اس سب کا باپ Marianas Webہے۔ جسے نہ کوئی جان سکا نہ جانتا ہے اور نہ اس تک پہنچنا آسان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے قیمتی راز دفن ہیں جیسے اسرائیل امریکہ وغیرہ نیز اس کے ٹاپ آپریٹرز iluminaties ہیں جہاں دنیا بھر کے الومناٹیز کا ڈیٹا بیس موجود ہے۔
ڈارک ورلڈ میں ایک خاص قسم کی ویب سائٹس کو ریڈ رومز کہا جاتا ہے۔وہاں تک رسائی تقریبا ناممکن ہے۔ ڈارک ویب ورلڈ میں یہ سب سے خفیہ رومز ہیں۔۔۔ وہاں تک رسائی بنا پیسوں کے نہیں ہوتی۔ ان سائٹس پر جانور یا انسانوں پر براہ راست تشدد کیا جاتا ہے اور بولیاں لگائی جاتی ہیں۔ آپ بٹ کوئن کی شکل میں پیسے ادا کر کے فرمائش کر سکتے ہو کہ اس جانور یا انسان کا فلاں اعضاءنکال دو۔ حقیقی زندگی میں اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ریڈ رومز تک گئے ہو تو آپ کو صرف وہاں جانے کے اعتراف پر بھی جیل جانا پڑے گا۔
ایسی ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں پر یورپ بھر میں کسی کے بھی قتل کی سپاری دے سکتے ہیں۔ عام شخص کا قتل 20 ہزار یورو۔۔ صحافی کا قتل 70 ہزار یورو اور سلیبرٹی کے قتل کا ریٹ ایک لاکھ یورو سے شروع ہوتا ہے۔ایک ویب سائٹ کا کلیم ہے کہ وہ مردہ بچوں کی روحیں فروخت کرتے ہیں۔ پنک متھ ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو کہ 2014ءمیں ٹریس کر کے بین کر دی گئی۔ وہاں لوگ اپنی سابقہ گرل فرینڈز، بیوی سے انتقام کی خاطر ان کی عریاں تصاویر بیچتے تھے اور ویب سائٹس ان لڑکیوں کے نام، ہوم ایڈریس اور فون نمبر کے ساتھ یہ تصاویر شیئر کرتی تھی۔
اس ویب سائٹ کی وجہ سے چار سے زیادہ لڑکیاں خود کشی کر چکی تھیں۔ لیکن یہ ویب سائٹ باز نہیں آئی۔ ایف بی آئی نے 2014ءمیں اس کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور اس کا سرور ٹریس کر کے بند کر دیا۔ مالکان آج تک فرار ہیں۔ (ویب سائٹ چونکہ اب آپریٹ نہیں کرتی اس لئے نام بتا دیا)۔ڈارک ورلڈ یا ڈیپ ورلڈ میں کچھ ایسی گیمز بھی پائی جاتی ہیں جو عام دنیا میں شاید بین کر دی جائیں۔ایسی ہی ایک خوفناک گیم کا نام "سیڈستان (شیطان)" ہے۔ اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم سٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔
انسانی سمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ ڈارک ویب ورلڈ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں خواتین کو بیچنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ جوزف کاکس جو کہ ایک ریسرچر ہیں وہ 2015ء میں ڈیپ ویب ورلڈ پر ریسرچ کر رہے تھے۔ ایسے میں اسی ورلڈ میں ان کا ٹاکرا ایک گروپ کیساتھ ہوا جس کا نام "بلیک ڈیتھ" تھا اور انہوں نے جوزف کو ایک عورت بیچنے کی آفر کی جس کا نام نکول بتایا اور وہ گروپ اس عورت کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرز مانگ رہا تھا۔
کینی بال یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جہاں کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔ جیسا پچھلے دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے” کیا کوئی میری ران کا آدھا پاونڈ گوشت کھانا چاہے گا؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں۔ اسے خود کاٹنے کی اجازت ہو گی۔“
جہاز تباہ ہونے کے بعد بلیک باکس (جہاز کا ایک آلہ) تلاش کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے میٹریل سے بنا ہوتا ہے جو تباہ نہیں ہوتا۔ اس بلیک باکس میں پائلٹ اور کو پائلٹ کی آخری ریکاڈنگز ہوتی ہے۔ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ تباہ ہونے سے پہلے کیا ہو اتھا۔ ایک ویب سائٹ پر تباہ شدہ جہازوں کی آخری ریکاڈنگز موجود ہیں۔ وہاں نائن الیون کے جہاز کی آڈیو فائل بھی موجود ہے۔ایک ویب سائٹ جوتے، پرس، بیلٹ وغیرہ بیچتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے بنے ہیں۔ لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا ضروری ہے۔
کیونکہ Deep Web کا ایک حصہ ہے جو تمام انٹرنیٹ کا تھل ہے، وہ Dark web یا Black Netکہلاتا ہے۔۔۔! کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنا حجم رکھتا ہے، مگر یہاں دنیا کا ہر غیر قانونی و غیر انسانی کام ہوتا ہے۔۔۔! منشیات، اسلحہ اور عورت کی خرید و فروخت سے لے کر ایک انسان کو ذبح کر کے گوشت کھانے تک Deep Webعام براؤزر کے ذریعہ باآسانی کھل سکتی ہے مگر اسے کوئی سرچ نہیں کر سکتا۔
اس کے کھلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ جس نے ڈیپ ویب کی وہ سائٹ بنائی ہے اس کا لنک جو چند الٹے سیدھے کوڈ نما الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے اسے کسی بھی براﺅذر میں ڈال کر انٹر کردیا جائے تو سائٹ کھل جاتی ہے۔ جبکہ Dark Web کسی بھی عام براﺅذر سے کبھی بھی نہیں کھلتی ماسوائے ٹور پراجیکٹ نامی براﺅذر کے جس کی سائٹس کی ایکسٹینشنز onion ہوتی ہیں جو صرف ٹور براﺅزر پر ہی کھلتی ہے۔ اس کا بھی سائٹ لنک عجیب الٹے سیدھے کوڈ نما نمبرز پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کا سائٹ کوڈ معلوم ہو تب ہی کھلتی ہے، مگر Tor کے کچھ اپنے سرچ انجن ہیں جن پر مطلوبہ سائٹ یا مطلوبہ ویڈیوز یا مطلوبہ مواد کو گوگل کی طرح سرچ کرکے باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اسی میں مزید ایک قدم آگے Red Roomsہے۔ جہاں بند کمروں میں دنیا کا بدترین تشدد دکھایا جاتا ہے۔جیسے زندہ انسانوں کی کھال اتارنا، آنکھیں نکالنا، ناک، کان، آلہ تناسل وغیرہ کاٹنا، اس میں سلاخیں گھسانا وغیرہ وغیرہ۔اس سب کے بعد اس سب کا باپ Marianas Webہے۔ جسے نہ کوئی جان سکا نہ جانتا ہے اور نہ اس تک پہنچنا آسان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے قیمتی راز دفن ہیں جیسے اسرائیل امریکہ وغیرہ نیز اس کے ٹاپ آپریٹرز iluminaties ہیں جہاں دنیا بھر کے الومناٹیز کا ڈیٹا بیس موجود ہے۔
ڈارک ورلڈ میں ایک خاص قسم کی ویب سائٹس کو ریڈ رومز کہا جاتا ہے۔وہاں تک رسائی تقریبا ناممکن ہے۔ ڈارک ویب ورلڈ میں یہ سب سے خفیہ رومز ہیں۔۔۔ وہاں تک رسائی بنا پیسوں کے نہیں ہوتی۔ ان سائٹس پر جانور یا انسانوں پر براہ راست تشدد کیا جاتا ہے اور بولیاں لگائی جاتی ہیں۔ آپ بٹ کوئن کی شکل میں پیسے ادا کر کے فرمائش کر سکتے ہو کہ اس جانور یا انسان کا فلاں اعضاءنکال دو۔ حقیقی زندگی میں اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ریڈ رومز تک گئے ہو تو آپ کو صرف وہاں جانے کے اعتراف پر بھی جیل جانا پڑے گا۔
ایسی ایک ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں پر یورپ بھر میں کسی کے بھی قتل کی سپاری دے سکتے ہیں۔ عام شخص کا قتل 20 ہزار یورو۔۔ صحافی کا قتل 70 ہزار یورو اور سلیبرٹی کے قتل کا ریٹ ایک لاکھ یورو سے شروع ہوتا ہے۔ایک ویب سائٹ کا کلیم ہے کہ وہ مردہ بچوں کی روحیں فروخت کرتے ہیں۔ پنک متھ ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو کہ 2014ءمیں ٹریس کر کے بین کر دی گئی۔ وہاں لوگ اپنی سابقہ گرل فرینڈز، بیوی سے انتقام کی خاطر ان کی عریاں تصاویر بیچتے تھے اور ویب سائٹس ان لڑکیوں کے نام، ہوم ایڈریس اور فون نمبر کے ساتھ یہ تصاویر شیئر کرتی تھی۔
اس ویب سائٹ کی وجہ سے چار سے زیادہ لڑکیاں خود کشی کر چکی تھیں۔ لیکن یہ ویب سائٹ باز نہیں آئی۔ ایف بی آئی نے 2014ءمیں اس کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور اس کا سرور ٹریس کر کے بند کر دیا۔ مالکان آج تک فرار ہیں۔ (ویب سائٹ چونکہ اب آپریٹ نہیں کرتی اس لئے نام بتا دیا)۔ڈارک ورلڈ یا ڈیپ ورلڈ میں کچھ ایسی گیمز بھی پائی جاتی ہیں جو عام دنیا میں شاید بین کر دی جائیں۔ایسی ہی ایک خوفناک گیم کا نام "سیڈستان (شیطان)" ہے۔ اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم سٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔
انسانی سمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ ڈارک ویب ورلڈ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں خواتین کو بیچنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ جوزف کاکس جو کہ ایک ریسرچر ہیں وہ 2015ء میں ڈیپ ویب ورلڈ پر ریسرچ کر رہے تھے۔ ایسے میں اسی ورلڈ میں ان کا ٹاکرا ایک گروپ کیساتھ ہوا جس کا نام "بلیک ڈیتھ" تھا اور انہوں نے جوزف کو ایک عورت بیچنے کی آفر کی جس کا نام نکول بتایا اور وہ گروپ اس عورت کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرز مانگ رہا تھا۔
کینی بال یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جہاں کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔ جیسا پچھلے دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے” کیا کوئی میری ران کا آدھا پاونڈ گوشت کھانا چاہے گا؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں۔ اسے خود کاٹنے کی اجازت ہو گی۔“
جہاز تباہ ہونے کے بعد بلیک باکس (جہاز کا ایک آلہ) تلاش کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے میٹریل سے بنا ہوتا ہے جو تباہ نہیں ہوتا۔ اس بلیک باکس میں پائلٹ اور کو پائلٹ کی آخری ریکاڈنگز ہوتی ہے۔ اس سے پتا چل جاتا ہے کہ تباہ ہونے سے پہلے کیا ہو اتھا۔ ایک ویب سائٹ پر تباہ شدہ جہازوں کی آخری ریکاڈنگز موجود ہیں۔ وہاں نائن الیون کے جہاز کی آڈیو فائل بھی موجود ہے۔ایک ویب سائٹ جوتے، پرس، بیلٹ وغیرہ بیچتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے بنے ہیں۔ لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا ضروری ہے۔
ضرور پڑھیں:زینب کے اہل خانہ سمیت دیگر متاثرہ خاندانوں کی ملز م عمران سے ملاقات کروائی گئی تو انہوں نے اسے دیکھتے ہی کیا کیا ؟مارا یا پیٹا نہیں بلکہ ۔۔۔
دنیا میں تین قسم کے ویب ہیں۔
۱۔ سرفیس ویب
۲۔ڈیپ ویپ
۱۔ سرفیس ویب
۲۔ڈیپ ویپ
ضرور پڑھیں:”ان جگہوں پر 5 ہزار کے عوض برہنہ رقص دکھایا جاتاہے اور پولیس ۔۔۔“معروف کامیڈین سہیل احمد نے ایسا انکشاف کر دیا کہ پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا
۳۔مریانہ ویب یا ڈارک ویب
ضرور پڑھیں:دبئی میں پودوں کو پانی دیتے پاکستانی کو اچانک ان کے درمیان ایک لڑکی کا جسم برہنہ حالت میں پڑا نظر آگیا، پولیس بلا لی، یہ دراصل کون تھی؟ ایسا انکشاف کہ ہنگامہ برپاہوگیا
۱۔ سرفیس ویب
سرفیس ویب وہ ویب ہے جو ہم میں سے ہر کوئی استعمال کرتا ہے جس میں روز مرہ کے کام یعنی گوگل فیس بک ویکی پیڈیا یوٹیوب وغیرہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ویب سائٹس ہیں جو انڈیکسڈ ہوئیں ہوتیں ہیں۔ جن کے لنکس کو گوگل کے اندر ایڈ کیا جاتا ہے۔ جنہیں ہم سرچ کرتے ہیں تو ان تک رسائی ممکن ہے۔
ضرور پڑھیں:” نااہلی کیس کی سماعت کے دوران بابر اعوان نے چیف جسٹس سے ’بابارحمتے‘ سے ملانے کا مطالبہ کردیا‘ اس پر جسٹس ثاقب نثار نے کیا جواب دیا؟ عدالت میں موجود ہرشخص اتفاق کرنے پر مجبور ہوگیا
۲۔ڈیپ ویب
یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ نہیں ہوئی ہوتیں۔یہ بنک ریکارڈز، میڈیکل ریکارڈز، سائنٹیفک رپورٹز، اکیڈیمک انفارمیشن، یعنی تمام ایسی سائٹز ہیں جن تک رسائی تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب ان کا ایڈریس ہمارے پاس ہو۔یعنی ان کے ایمپلائی یا کسٹمر یا سٹوڈنٹس ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جن کے پاس پاسورڈ اور یوزر آئی ڈی ہو۔
یہ وہ ویب سائٹس ہوتیں ہیں جو انڈیکسڈ نہیں ہوئی ہوتیں۔یہ بنک ریکارڈز، میڈیکل ریکارڈز، سائنٹیفک رپورٹز، اکیڈیمک انفارمیشن، یعنی تمام ایسی سائٹز ہیں جن تک رسائی تب ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب ان کا ایڈریس ہمارے پاس ہو۔یعنی ان کے ایمپلائی یا کسٹمر یا سٹوڈنٹس ہی رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ جن کے پاس پاسورڈ اور یوزر آئی ڈی ہو۔
مریانہ ویب یا ڈارک ویب
اسے مریانہ ٹرنچ کی نسبت سے مریانہ ویب کا نام دیا گیا ہے جو سمندر کا سب سے گہرا حصہ ہوتا جہاں پہنچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا ہے۔ ان ویب سائٹس تک پہنچنے کیلئے مخصوص براﺅزر، یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک عجیب ہی دنیا شیطانیت میں ڈوبی ہوتی ہے۔یہ وہ ویب ہے جہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا اور پہنچنا چاہیں تو غیر قانونی ہونے کے ساتھ انتہائی خطرناک بھی ہے۔یہاں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے سرورز بھی پرائیویٹ ہوتے ہیں۔ یہاں پر کسی بھی ریگولر براوزر سے رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک مخصوص براﺅزر ٹی۔ او۔ آر۔ یعنی TOR۔ اسی کے ذریعے ہم یہاں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ویب تک رسائی حاصل کرنے سے ہماری انفارمیشن اِن تک جا سکتی ہے جس کو یہ اپنے کسی بھی گندے مقصد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں اور ہمیں پھنسا سکتے ہیں۔ یہاں پیسوں کی ادائیگی کے لئے بِٹ کوئین کرنسی متعارف کروائی گئی ہے جو ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے۔
یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین، سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتی ہیں۔ یہاں پر منشیات، اسلحہ، کنٹریکٹ کلنگز، چائلڈ پورنو گرافی، پرائیویٹ لائیو فائٹس، ملکوں کے راز چرانے اور بیچنے، انسانی اعضاءبیچنے اور خریدنے، لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا کاروبار ہوتا ہے۔ یعنی ہر دو نمبر کام یہاں پر ہوتا ہے۔ ان کو پکڑنا بہت ہی مشکل ہے ایک طرح سے ناممکن ہے۔
ہمارا اصل مدعا یہ نہیں اصل مدعا ہے پاکستان میں ہونے والے لگاتار بچوں کے اغوا ان کے ساتھ جنسی تشدد اور ان کو مار دینا۔ بچوں کا قتل پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پاکستان میں سچ کو ہمیشہ مسخ کیا جاتا رہا اور پاکستان میں ہی کیوں دنیا کے بیشتر ممالک میں یہی سب ہو رہا ہے۔
آج سے بائیس برس پہلے کا ایک کیس کچھ دوستوں کو یاد ہوگا جاوید اقبال مغل 100بچوں کو قتل کرنے والا درندہ جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا، ان کو قتل کرتا تھا اور ان کی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیتا تھا۔ جاوید اقبال مغل جسے جسٹس اللہ بخش رانجھا نے 100 دفعہ پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیا تھا، اسے ایک نفسیاتی مریض کہا گیا تھا۔
روزنامہ ڈان کی 2001ءمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطاق جاوید اقبال مغل نے ایک ویڈیو گیم سینٹر بنایا ہوا تھا جہاں وہ بچوں کو ٹریپ کرتا تھا، ان کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا، انہیں پیسے دیتا تھا اور ڈرا دھمکا کر چپ کروا دیتا تھا۔ قتل کرنے کیلئے وہ گھر سے بھاگے بچوں اور فٹ پاتھ پر رہنے والے غریب بچوں کا انتخاب کرتا تھا۔
تین دسمبر 1999ءکو ایک اردو اخبار کے دفتر پہنچ کر اس نے اعتراف کیا تھا کہ میں جاوید اقبال ہوں، 100بچوں کا قاتل۔ میں نے 100بچوں کا قتل کیا ہے اور مجھے نفرت ہے اس دنیا سے مجھے بچوں کو قتل کرنے پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ جاوید اقبال مغل اور اس کی اعانت کرنے والوں کو موت کی سزا سنائی گئی اور بعد میں جاوید اقبال اور اس کے ساتھی نے جیل میں زہر کھا کر خود کشی کر لی تھی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کسی خفیہ ہاتھ نے ان کو ختم کروا دیا تھا اور یہ کیس تھا ہیومین آرگنز کی سمگلنگ کا۔ یعنی بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی ویڈیوز اور بعد میں ان کو قتل کرکے ان کے جسمانی اعضاءبیچے گئے تھے اور جاوید اقبال مغل کو خاموش کروا دیا گیا۔ خفیہ ہاتھوں کیلئے کئی جاوید اقبال کام کرتے ہیں۔
اسے مریانہ ٹرنچ کی نسبت سے مریانہ ویب کا نام دیا گیا ہے جو سمندر کا سب سے گہرا حصہ ہوتا جہاں پہنچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا ہے۔ ان ویب سائٹس تک پہنچنے کیلئے مخصوص براﺅزر، یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک عجیب ہی دنیا شیطانیت میں ڈوبی ہوتی ہے۔یہ وہ ویب ہے جہاں تک پہنچا نہیں جا سکتا اور پہنچنا چاہیں تو غیر قانونی ہونے کے ساتھ انتہائی خطرناک بھی ہے۔یہاں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے سرورز بھی پرائیویٹ ہوتے ہیں۔ یہاں پر کسی بھی ریگولر براوزر سے رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ایک مخصوص براﺅزر ٹی۔ او۔ آر۔ یعنی TOR۔ اسی کے ذریعے ہم یہاں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ویب تک رسائی حاصل کرنے سے ہماری انفارمیشن اِن تک جا سکتی ہے جس کو یہ اپنے کسی بھی گندے مقصد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں اور ہمیں پھنسا سکتے ہیں۔ یہاں پیسوں کی ادائیگی کے لئے بِٹ کوئین کرنسی متعارف کروائی گئی ہے جو ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے۔
یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین، سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتی ہیں۔ یہاں پر منشیات، اسلحہ، کنٹریکٹ کلنگز، چائلڈ پورنو گرافی، پرائیویٹ لائیو فائٹس، ملکوں کے راز چرانے اور بیچنے، انسانی اعضاءبیچنے اور خریدنے، لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا کاروبار ہوتا ہے۔ یعنی ہر دو نمبر کام یہاں پر ہوتا ہے۔ ان کو پکڑنا بہت ہی مشکل ہے ایک طرح سے ناممکن ہے۔
ہمارا اصل مدعا یہ نہیں اصل مدعا ہے پاکستان میں ہونے والے لگاتار بچوں کے اغوا ان کے ساتھ جنسی تشدد اور ان کو مار دینا۔ بچوں کا قتل پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن پاکستان میں سچ کو ہمیشہ مسخ کیا جاتا رہا اور پاکستان میں ہی کیوں دنیا کے بیشتر ممالک میں یہی سب ہو رہا ہے۔
آج سے بائیس برس پہلے کا ایک کیس کچھ دوستوں کو یاد ہوگا جاوید اقبال مغل 100بچوں کو قتل کرنے والا درندہ جو بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا، ان کو قتل کرتا تھا اور ان کی لاشوں کو تیزاب میں جلا دیتا تھا۔ جاوید اقبال مغل جسے جسٹس اللہ بخش رانجھا نے 100 دفعہ پھانسی پر چڑھانے کا حکم دیا تھا، اسے ایک نفسیاتی مریض کہا گیا تھا۔
روزنامہ ڈان کی 2001ءمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطاق جاوید اقبال مغل نے ایک ویڈیو گیم سینٹر بنایا ہوا تھا جہاں وہ بچوں کو ٹریپ کرتا تھا، ان کے ساتھ جنسی تشدد کرتا تھا، انہیں پیسے دیتا تھا اور ڈرا دھمکا کر چپ کروا دیتا تھا۔ قتل کرنے کیلئے وہ گھر سے بھاگے بچوں اور فٹ پاتھ پر رہنے والے غریب بچوں کا انتخاب کرتا تھا۔
تین دسمبر 1999ءکو ایک اردو اخبار کے دفتر پہنچ کر اس نے اعتراف کیا تھا کہ میں جاوید اقبال ہوں، 100بچوں کا قاتل۔ میں نے 100بچوں کا قتل کیا ہے اور مجھے نفرت ہے اس دنیا سے مجھے بچوں کو قتل کرنے پر کوئی ندامت نہیں ہے۔ جاوید اقبال مغل اور اس کی اعانت کرنے والوں کو موت کی سزا سنائی گئی اور بعد میں جاوید اقبال اور اس کے ساتھی نے جیل میں زہر کھا کر خود کشی کر لی تھی۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کسی خفیہ ہاتھ نے ان کو ختم کروا دیا تھا اور یہ کیس تھا ہیومین آرگنز کی سمگلنگ کا۔ یعنی بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کی ویڈیوز اور بعد میں ان کو قتل کرکے ان کے جسمانی اعضاءبیچے گئے تھے اور جاوید اقبال مغل کو خاموش کروا دیا گیا۔ خفیہ ہاتھوں کیلئے کئی جاوید اقبال کام کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔۔۔”عمران کے بینک اکاﺅنٹس کے بارے میں۔۔۔“ ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوﺅں کے بعد حامد میر بھی میدان میں آ گئے، ایسا دعویٰ کر دیا کہ ہر پاکستانی دنگ رہ گیا
2015ءکا ایک بڑا سکینڈل جس میں 2006ءسے لیکر 2015ءتک 300 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے ان کی ویڈیوز بنائی گئیں اور اس سارے معاملے میں پولیس اور ایم پی اے ملک احمد سعید کو ملوث بتایا گیا۔ ہم جس طرح سے ہر کیس کو جہالت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو وجہ بنا کر چپ ہو جاتے ہیں ایسا نہیں ہے، یہ ایک ملٹی ٹریلین انڈسٹری ہے۔ ابھی حال ہی میں قصور میں زینب بھی اسی جنسی تشدد کا شکار ہوئی اور بعد میں اس کی لاش کچرے میں پائی گئی اور پورے پاکستان میں ہی یہ ہو رہا ہے۔
مذہبی کمیونٹی لبرلز کو اسکی وجہ مانتے ہیں اور لبرلز اس کو مولویوں پر تھوپ رہے ہیں، بھائی لوگ یہ اتنا سادہ کام نہیں ہے یہ کسی محرومی کی وجہ سے یا نفسیاتی پیچیدگیوں کی وجہ سے نہیں ہو رہا، یہ کاروبار ہے، بہت بڑا کاروبار ہے۔ مثال کے طور دنیا کے کچھ امیر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈارک ویب پر جاتے جہاں وہ کسی مخصوص ویب سائٹ کے ممبر ہوتے ہیں، وہاں یہ سب باقاعدہ لائیو دیکھایا جاتا ہے۔
وہ باقاعدہ اپنی ڈیمانڈ پر بچے کے ساتھ یا عورت کے ساتھ جنسی تشدد کرواتے اور بولی لگاتے ہیں کہ اس کے ساتھ یہ کرو تو اتنے پیسے لے لو اور وہ کرو تو اتنے پیسے۔ پرائیویٹ فائٹس میں کسی ایک فائٹر کے مرنے تک یہ لوگ بولیاں لگاتے رہتے ہیں، ہم لوگ ایک ایسی شیطانی دنیا میں رہ رہے ہیں جس کی شیطانیت پوری طرح سے انسانیت پر غالب آ چکی ہے، جس کی وجہ ہے اچھے لوگوں کی خاموشی۔
نکلو، جاگو، اٹھو ورنہ دنیا سے اٹھ جاﺅ گے، یہاں کچھ برے لوگ اپنے تھوڑے سے فائدے کیلئے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی کیا حالت ہے، کرپشن، بے ایمانی، رشوت خوری ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔ ہم یوں چپ ہیں کہ جیسے مر چکے ہیں۔ میری ملک کے اہم اداروں سے درخواست ہے کہ قصور میں بھارتی دخل اندازی کو بھی چیک کیا جائے۔مجھے پورا یقین ہے ان آرگنائزڈ کرائم کے پیچھے سرحد پار سے بھی کچھ سرکاری اور غیر سرکاری لوگ ضرور شامل ہوں گے۔ ہمیں اٹھنا پڑے گا ورنہ ایک عام انسان کی پہلے سے جہنم زندگی اور بھی جہنم بن جائے گی..!
2015ءکا ایک بڑا سکینڈل جس میں 2006ءسے لیکر 2015ءتک 300 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے ان کی ویڈیوز بنائی گئیں اور اس سارے معاملے میں پولیس اور ایم پی اے ملک احمد سعید کو ملوث بتایا گیا۔ ہم جس طرح سے ہر کیس کو جہالت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو وجہ بنا کر چپ ہو جاتے ہیں ایسا نہیں ہے، یہ ایک ملٹی ٹریلین انڈسٹری ہے۔ ابھی حال ہی میں قصور میں زینب بھی اسی جنسی تشدد کا شکار ہوئی اور بعد میں اس کی لاش کچرے میں پائی گئی اور پورے پاکستان میں ہی یہ ہو رہا ہے۔
مذہبی کمیونٹی لبرلز کو اسکی وجہ مانتے ہیں اور لبرلز اس کو مولویوں پر تھوپ رہے ہیں، بھائی لوگ یہ اتنا سادہ کام نہیں ہے یہ کسی محرومی کی وجہ سے یا نفسیاتی پیچیدگیوں کی وجہ سے نہیں ہو رہا، یہ کاروبار ہے، بہت بڑا کاروبار ہے۔ مثال کے طور دنیا کے کچھ امیر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈارک ویب پر جاتے جہاں وہ کسی مخصوص ویب سائٹ کے ممبر ہوتے ہیں، وہاں یہ سب باقاعدہ لائیو دیکھایا جاتا ہے۔
وہ باقاعدہ اپنی ڈیمانڈ پر بچے کے ساتھ یا عورت کے ساتھ جنسی تشدد کرواتے اور بولی لگاتے ہیں کہ اس کے ساتھ یہ کرو تو اتنے پیسے لے لو اور وہ کرو تو اتنے پیسے۔ پرائیویٹ فائٹس میں کسی ایک فائٹر کے مرنے تک یہ لوگ بولیاں لگاتے رہتے ہیں، ہم لوگ ایک ایسی شیطانی دنیا میں رہ رہے ہیں جس کی شیطانیت پوری طرح سے انسانیت پر غالب آ چکی ہے، جس کی وجہ ہے اچھے لوگوں کی خاموشی۔
نکلو، جاگو، اٹھو ورنہ دنیا سے اٹھ جاﺅ گے، یہاں کچھ برے لوگ اپنے تھوڑے سے فائدے کیلئے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی کیا حالت ہے، کرپشن، بے ایمانی، رشوت خوری ہمارا شیوہ بن چکا ہے۔ ہم یوں چپ ہیں کہ جیسے مر چکے ہیں۔ میری ملک کے اہم اداروں سے درخواست ہے کہ قصور میں بھارتی دخل اندازی کو بھی چیک کیا جائے۔مجھے پورا یقین ہے ان آرگنائزڈ کرائم کے پیچھے سرحد پار سے بھی کچھ سرکاری اور غیر سرکاری لوگ ضرور شامل ہوں گے۔ ہمیں اٹھنا پڑے گا ورنہ ایک عام انسان کی پہلے سے جہنم زندگی اور بھی جہنم بن جائے گی..!
0 Comments