Advertisement

Responsive Advertisement

کالی بھیڑوں کی ہٹ دھرمیاں

Image result for stop corruptionImage result for stop corruption

کالی بھیڑوں کی ہٹ دھرمیاں
تحریر : بلال جتوئی
محترم و مکرم جناب وزیراعلیٰ سندھ،  آئی جی سندھ پولیس ۔۔ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل کی بات ہے جب ناظم آباد میں ایک 17 سالہ یاسر جمیل نامی لڑکے نے خواتین سے لوٹ مارکرنے کے دوران ملزمان پر فائرنگ کردی تھی اور اسے آپ نے بہادری کا سرٹیفکٹ دینے کے ساتھ ساتھ نقد انعام سے نوازا تھا ۔ کورنگی میں ایک لڑکی نے ڈاکوؤں پر کار چڑھا دی جن کی حوصلہ افزائی کیلئے نہ صرف سندھ پولیس تعریف کرتے تھکی بلکہ ڈی جی رینجرز نے اس بہادر بیٹی کو تعریفی سند دی جوکہ قابلِ تحیسن اقدام ہے۔ چند ہی روز بعد پھر ناظم آباد کے علاقے میں نوجوان نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ہی لائسنسی اسلحہ کے زور پر ڈکیت کو پکڑ کر رینجرز کے حوالے کردیا۔ اس طرح ڈیفنس میں بھی ایک بہادر شہری جان جوکھوں میں ڈال کر ڈاکوؤں پر کار چڑھا دی تھی جس کے بعد ملزمان کو زخمی حالت میں باآسانی گرفتار کرلیا گیا ۔۔ بہرحال شہریوں کی معاونت سے سندھ باالخصوص شہر قائد میں امن و امان کا قیام دیدنی ہے اور سندھ پولیس کا مورال بھی بلند ہوا اور یہ سب ایک دیانتدار اور فرض شناس اے ڈی خواجہ جیسے آئی جی کی تعیناتی کی بدولت ہے ۔ جن کا کردار اور پیشہ ورانہ امور قابل تحسین ہیں ۔
مگر جناب آئی جی صاحب اور وزیراعلیٰ سندھ کے علم میں کچھ پولیس اہلکاروں کے کارنامے لانا چاہتا ہوں ۔
یہ کہ 17 اور 18 فروری کی درمیانی شب 9 بجے رات اللہ دتہ المعروف اے ڈی اپنے 8/9 سالہ بیٹے کے ساتھ شادی ہال کی طرف جارہا تھا کہ تیموریہ تھانے کے ایس ایچ او نواز بروہی نے دونوں باپ بیٹے کو موٹرسائیکل سے اتار کر باپ کو موبائل وین جبکہ معصوم بچے کو پولیس کے روایتی انداز دھتکار کر گھر بھاگ جانے کا حکم صادر فرمایا ۔ بچہ روتا سسکتا بلاآخر گھر تک پہنچ ہی گیا ۔۔
ایس ایچ او موصوف بجائے تھانے لے جانے کے تین گھنٹے تک ملزم کو سڑکوں اور گلیوں میں گھماتا رہا ۔ اسے لوگوں کے سامنے زدوکوب کرکے ذلیل و رسوا کرتا رہا ۔
بعدازاں تھانے لے جاکر مک مکا کی گئی،  ایس ایچ او کی ڈیمانڈ پر پورا نہ اترنے کے بعد دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے الزام میں بجرم دفعہ 188 کے تحت بند کردیا ۔
جناب آئی جی صاحب آپکے ہم نام اللہ دتہ عرف اے ڈی ایک کاروباری شخص ہے شادمان ٹاون میں ان کا پکوان سینٹر ہے شادی بیاہ کی تقریبات میں سیکڑوں افراد کے لئے طرح کی ڈشز تیار کرکے شادی ہالز تک پہنچاتا ہے ۔ اور پھر وہاں سے لاکھوں روپے اجرت لے کر اپنی منزل کی طرف جاتا ہے ۔ وہ شخص کئی بار ڈاکوؤں سے لٹ چکا ہے بالآخر اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے سندھ حکومت سے لائسنس حاصل کرکے پستول رکھ لیا ۔
اللہ دتہ کسی عوامی مقامات پر اسلحہ کی نمائش نہیں کررہا تھا بلکہ اسے گھر سے نکلتے ہی گرفتا کیا گیا ۔
جناب آئی جی صاحب ۔۔ کیا نواز بروہی جیسے ایس ایچ اوز کو صرف یہی کام دیا گیا کہ کاروباری افراد کو غیر مسلح کرکے لٹیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟  استدعا کی جاتی ہے اس واقعے کی انکوئری کی جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ملزم نے واقعی دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی ہے یا ایس ایچ او نے کسی کی فرمائش پوری کی؟  اگر اس طرح کے معمولی واقعات اور چند کالی بھیڑوں کے کالے کرتوتوں پر نظر نہ ڈالی گئی تو شہری خود کو عدم تحفظ کا شکار جبکہ لٹیرے نہتے شہریوں سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری و ساری رکھیں گے ۔

Post a Comment

0 Comments