نواز شریف اور ان کے صاحبزادی مریم نے سیاست میں اپنے بقا کا راستہ گزر راستہ چنا ہے. لیکن جواب میں انہوں نے دوسرے کو آزما دیا. نگراں چاہے پنجاب میں ہوں یا وفاق میں ان کی پہلی آزمائش آخری جمعہ ہوئی جب نواز شریف اور مریم وطن واپس آکر گرفتار اور جیل پہنچا دئے گئے. گو کہ باپ اور بیٹی افسران تھے لیکن وہ مسکراتے اور پرسکون دکھائی دیئے. چہروں سے کوئی تشویش یا پریشانی ظاہر نہیں ہے. پہلے سے ہی نگراں بوکھلائے نظر آئے. نگراں وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک اور نگراں وزیر اعلی پنجاب حسن عسکری اپنے اچھے شہرت کے باوجود وہ جس بات کا زندگی بھر پرچار کرتے رہے. سابق چیف جسٹس اور پروفیسر کے چیف جسٹس اور پروفیسر کے چیف جسٹس آفریدی نے کہا ہے کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی. ماضی میں کہے کا خلاف تھا. جو بنیادی حقوق، جمہوریت اور فئیر پلے کے بارے میں وہ کہتے ہیں. ان کے کچھ وزرا نے زیادہ مایوس کیا. کسی ایک وزیر نے بھی ایک سیاسی جماعت کو ہدف بنائے جانے کے خلاف آواز نہیں اٹھائی. جو پہلے ہی اطراف سے حملوں کی زد میں ہے. اقتدار کیایوانوں میں کئی کرداروں کی موجودگی میں ایک سیاسی جماعت کو ہدف بنائے جانے کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھی. آزاد آواز میں قومی میڈیا کو تبایا گیا. اس طرح لاہور میں مسلم لیگ ن کی شو مکمل بائیکٹ رہا. سینئر اینکر پرسنز نے اپنے پروگرام اور انٹرویوز (نواز شریف) کو سنسر کیا جانے کا دعوی کیا. سوشل میڈیا کی معلومات اور اطلاعات کا واحد ذریعہ رہا. متعدد آزاد آوازوں نے نگرانوں کی خصوصی پنجاب کے وزیر اعلی پر تنقید کیا ہے. اکثر کی نظروں میں انہوں نے اپنا وقعت کھودی ہے. پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نگران کی رویوں سے اس قدر دل کو شکست دیتے ہیں کہ انہوں نے نگراں نظام کو ناکام قرار دیا اور کہا کہ جتنے جلدی ہو، اس نظام کو لپیٹ دینا چاہئے. دانشوروں اور اہل علم کی ایک گروہ نے پروفیسر عسکری کا نام ایک خط میں بدترین تشدد پسندانہ اقدامات شدید مایوسی کا اظہار کیا.{ یہ معاملات پر نگراں وزیر اعظم کی خاموشی پر ایک سینئر بیورو کریٹ نے تبصرہ کیا کہ جسٹس (ر) نصر الملک نگراں وزیر اعظم ہیں. انہوں نے آئین کا دفاع اور اسے بالا تر رکھنے کی حلف اٹھایا ہے. لیکن لگتا ہے وہ وزیر اعظم ہائوس ہی کے نگراں ہیں. غیر جانبداری اور اپنے منصفانہ حیثیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکامی پر جہاں نگراں سوشل میڈیا پر ہدف تنقید ہیں وہ انتخابی کمیشن کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لئے طاقت کے لئے بنانے کے لئے تشکیل دے سکتے ہیں، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مواقع میسر ہوں. اپنے آزاد اور طاقتور حیثیت کے اعتبار سے پہلے ہی آزمائش 2018 کی عام انتخابات ناکام ہوگئی ہے. اکثر سیاسی جماعتوں نے شکوک اور شبہات کی آزادی اور منصفانہ انتخابات کا انتخاب کیا. ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا ہے. لیکن الیکشن کمیشن نے اقدامات کو دور کرنے کی کوششوں کو نہیں کیا. ذرائع ابلاغ کی دباؤ پر الیکشن کمیشن نے نیب کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا. اب سب سے نگاہیں اعلی عدلیہ پر مرکوز ہیں. جو نواز شریف، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر کی اپیلوں کی سماعت کرے گی. وہ جو قانون کو جانتے ہیں اور عدالتی عمل سے واقف ہیں، ان کے خیال میں احتساب عدالت کا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے حوالے سے فیصلہ غلط ہے. حتی کہ نواز شریف کی سخت مخالف سابق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اسے مسترد کردیا اور کہا کہ سزا کا قانونی بنیاد نہیں ہے. قبل از انتخابات سیاسی انجینئرنگ اور مداخلت کی بھی الزام لگائے جارہےہیں. فوجی ترجمان اپنے طور پر اسے مسترد کرچکا ہیں. لیکن اس صورتحال کا کوئی حل نکالنے کی ضرورت ہے. تاہم قانونی اور آئینی طورپر نگراں وزیر اعظم سے لے کر چیف الیکشنز کمیشن حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز اس وقت ملکی معاملات چل رہے ہیں لہذا آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد بھی ان کی ذمہ داری ہے. جس میں کسی سیاسی رہنما اور جماعت کو نشانہ نہ بنایا جائ
0 Comments