موجودہ دور میں بااختیار و مقتدر مسلمان اقربا نوازی میں اسلامی تعلیمات اور قانون قاعدے کو بھول کر سب سے پہلے اپنوں کو نوازنے میں لگے رہتے ہیں ۔قومی خزانے سے قرضے لیکر اپنوں کو کاروبار شروع کراتے اور پھر قرضہ واپس بھی نہیں کرتے اور اسکو اپنا حق سمجھ کر ڈکار جاتے ہیں۔خاص طور پر وہ لوگ جنہیں دیکھ کر معاشرہ تقلید کرتا ہے اگر وہی لوگ لوٹ مار میں لگے ہوں اور اقتدار و اختیار کے معاملات کے وارث بھی ہوں تو جب وہ قومی خزانے کا منہ اپنوں پر کھول دیتے ہیں تو پورا معاشرہ اصلاح سے محروم ہوجاتا اور جرم کی راہ اختیار کرتا ہے ۔اسلامی تعلیمات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلامی ریاست میں امر بالمعروف کا اصول سخت ہوتا ہے ۔بااختیارلوگوں کے کاندھوں پر زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور انہیں اسلامی مساوات پر سختی سے عمل کرنا ہوتا ہے ۔وہ اپنا اور اپنے عزیزوں کا کڑا احتساب کرتے ہیں۔ اگر صاحب اقتدار واختیاراقربا پروری کرنے پر اتر آئیں تو غریب اور امیر میں مساوات قائم نہیں رہ سکتی ۔اسلام ہر صاحب اختیار کو امین و صادق دیکھنا چاہتا ہے اور اس کا نظام احتساب انتہائی کڑاہے۔اس کا سبق ہمیں خلفا کرامؓ کے قائم کردہ پیمانوں اور اصولوں سے ملتا ہے ،بے شک ان کا ہر عمل ہر حکمران اور صاحب اختیار کے لئے بہترین نمونہ ہونا چاہئے۔
روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے صاحبزادے روزگار کی تلاش میں عراق گئے اور ایک سال بعد واپس آئے تومال سے لدے اونٹ ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا” بیٹا اتناما ل کہاں سے ملا“
بیٹے نے جواب دیا ” تجارت کی“
حضرت عمرؓ نے پوچھا” تجارت کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟“
بیٹے نے جواب دیا ” چچا نے قرض دیا“ ۔ چچا سے مراد کوفہ کاگورنر تھا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً گورنر کو مدینہ طلب کیا، جو صحابی رسول پاکﷺ بھی تھے۔ ان سے حضرت عمرؓ نے پوچھا ”کیا وہاں بیت المال میں اتنی دولت آگئی ہے کہ شہری کو قرضہ دے سکتے ہو؟“
گورنر نے جواب دیا : ”نہیں ، ایسا تو نہیں“ ۔
حضرت عمر ؓ نے پوچھا ”پھر تم نے میرے بیٹے کو قرض کیوں دیا، اس لئے کہ وہ میرا بیٹا ہے؟ میں تمہیں معزول کرتا ہوں کیونکہ تم امانت داری کے اہل نہیں ہو۔“
پھر حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے کو حکم دیا ”سارا مال بیت المال میں جمع کرادو، اس پر تمہارا کوئی حق نہیں“۔
دیکھنا ہوگا کہ کیا امت مسلمہ میں اس کردار کا کوئی حکمران موجود ہے جو عشق نبیﷺ اور عدل فاروقی کا نعرہ تو لگاتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے؟
0 Comments