لاہور (hot line plus news network )پاکستان کے معروف کامیڈین سہیل احمد جو کہ ایک لمبے عرصہ سے تھیٹر سے منسلک رہے اور انہوں نے اپنے بے مثال فن کے ذریعے لوگوں کو بہت انٹرٹینمنٹ فراہم کی تاہم ان کی خصوصیت یہ رہی کہ جب بھی اگر وہ کوئی سٹیج ڈرامہ کرتے تو اس میں کوئی نہ کوئی میسج ضرور ہو تا اور وہ ڈرامے فحاشی سے پاک ہوا کرتے جنہیں فیملیز کے ساتھی بآسانی دیکھا جا سکتا ہے جس میں ایک بڑی مثال ’فیقا ان امریکہ بھی ہے ‘۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سہیل احمد کا کہناتھا کہ میرا سارا تعلق ثقافت سے رہاہے ،کسی بھی ایوان نے آج تک ثقافت کی طرف کوئی دیہان نہیں دیا ، 70 سال میں کوئی قانون سازی یا پالیسی نہیں بنائی گئی تاہم اس حوالے سے تھوڑی سی توجہ بھٹو صاحب نے دی اور آرٹ کونسل بنوائی جسے لے کر ہم چل رہے ہیں ۔سہیل احمد نے کہا کہ پچھلے 25 سے 30 سال کے گانے اٹھا کر دیکھ لیں اور ان کی شاعری دیکھیں ’منجی وچ ڈانگ پھیر دا ،کام پے گیا اے تیرا نال تھوڑی دیر دا ’“،اس وقت کوئی ایسا بندہ نہیں آیا جو اس وقت کے سینسر بورڈ سے پوچھتا یہ کیا ہورہاہے ،یہ بچے سن کر کس راستے پر چلیں گے ،اسے جب ہماری آنے والی نسل سنے گی تو جنسی اشتعال کس طرح پھیلے گا ؟انہوں نے کہا کہ فلموں کے بعد یہ گانے سٹیج پر چلائے گئے اور ان پر انتہائی فحش رقص کیا جانے لگا ۔ سہیل احمد نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ گانے صرف انٹرنیٹ پر نہیں بلکہ پورے ہال روڈ اور ہر میوزک سینٹر پر بکے ہیں ،میںنے ایک دفعہ پہلے بھی یہ معاملہ اٹھایا تو کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتاہے میں نے کہا کہ کسی بھی میوزک سینٹر پر جا کر دیکھ لو ۔سہیل احمد نے تاریک پہلو سے پردہ ہٹاتے ہوئے بتایا کہ تھیٹر میں جہاں 500 سے 600 بندہ بیٹھا ہوتاہے ،میری بہنیں مجھے معاف کردیں ،یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ تھیڑوں میں برہنہ رقص ہوتا رہاہے ،جسے لوگوں نے بہت زیادہ دیکھا شروع کر دیا ۔ہر شخص سے تقریبا اس میں شرکت کیلئے 5 ہزار روپے لیے جاتے ہیں اور اگر 15 دن کے شو میں سے لاکھ یا دو لاکھ پولیس کو دے دیئے جائیں تو الٹا وہ اس کی حفاظت کریں گے ۔ان تھیٹرز میں فیملیز تو نہیں ہوتی لیکن یہ ہماری نسل میں خرابی پیدا کر رہاہے جس کی روک تھام انتہائی ضروری ہے ۔
0 Comments