Image result for for saleImage result for vote for sell

آج صبح سے دل کر رہا ہے که محترم جناب آصف علي زرداری صاحب اور ان کی تھنک ٹينک کو مبارکباد دوں.
بھلے وه پاکستان کے تين صوبوں سے پيپلز پارٹی کا مکمل خاتمه کر چکے ہوں، بھلے سندھ کے بڑے شھروں کراچی، حيدرآباد، سکھر، لاڑکانه، دادو، شکارپور، ميرپورخاص سے بھی پيپلز پارٹی کے ووٹ بينک اور تنظيم کا آل موسٹ صفايا ہو چکا ہو، مگر بقيه ديھی علائقوں کے لوگوں کو لاقانونيت، بليک ميلنگ، انکم سپورٹ کارڈز، ثقافتی سرگرميوں، جھوٹے کيسز، ادبی ميلوں، اسپانسرڈ سرکاری دوروں، ايوارڈز، ملازمتوں، فرمائشی کالمز، تجزيوں اور ميڈيا اور پينافليکس کے جال ميں جس طرح الجھايا اور پھنسايا گيا ھے، وه واقعی بلاول ھائوس ميں بٹھائی گئی پانچھ وزراء، چھ ان سروس اور ريٹائرڈ بيورو کريٹس، پانچھ اديبوں، دو اين جی او ماھرين، چار منتخب نمائندوں اور چھ صحافيوں پر مشتمل اٹھائيس رکنی تهنکرز ٹيم کا حيرت انگيز کارنامه ھے.
اس 28 رُکنی پلاننگ اينڈ پروپيگنڈا ٹيم نے منصوبه سازي ميں گوئبلز، پرشانت کشور، براڈ پارسکيل اور اميت شاھ  کو بھی عارضی طور پر پيچھے چھوڑ ديا ہے جنھوں نے ھٹلر، مودی اور ٹرمپ کی کيمپيئنز چلائی تھيں.
يے اس اٹھائيس رکنی ٹيلنٹڈ ٹيم کا کمال ہے که سندھ  کے نه صرف غريب کسان اور مزدور، نچلے طبقے کے ملازمين،  بلکه سينکڑوں پڑھے لکھے مڈل کلاس لوگ يے جانتے ھوئے بھی که ھر سال انکے وطن کے ھزاروں کروڑ روپے کرپشن کے ذريعے لوٹ کر باھر بھيجے جا رہے ہيں، ان کے بچے بھوکے مر رھے ہيں، ان کی سرکاری زمينيں مافياز کو بيچ دی گئی ہيں، ان کی تعليم، صحت اور ميرٹ تباھ کرديے گئے، ان کی خواتين اور اقليتی بچيان اغوا ہو رھی ہيں، گنے، گندم، چاول کی فصليں تباھ کر دی گئيں، ميھڑ، خيرپور، قاضي احمد اور مٹھی کے راستے بيگناھوں کے خون سے رنگ ديے گئے، لوگوں کو بيشرمی سے گٹر کا پانی پلايا جا رھا ھے، انکے  اساتذا، نرسيں، سرکاری ملازمين اور آبادگار سڑکوں پر بيرحمی سے تشدد اور تذليل کا نشانه بنتے رھے........ مگر پھر بھی وه بيحس بن کر اھل اقتدار کے آگے جھکنے اور ان کے قصيدے گانے پر مجبور کر ديے گئے ھيں...
ٹی28 کی طرف سے انکے منه ميں کبھی کسی تبادلے، ملازمت يا ادبی ميلے کی صدارت، کبھی جھاز ميں اسپانسرڈ فائيو اسٹار دورے، کسی ماھوار دست شفقت، کسی ايوارڈ، کسی چيئر، کسي پراجيکٹ، کسی اسيمبلي يا سينيٹ کی ٹيکنوکريٹ يا اقليتی نشست، کلفٹن کے کسی محل نما بنگلے يا ريستوراں ميں سيون کورس ڈنر، گروپ فوٹو اور ماھوار لفافے کا لالی پوپ ڈال کر انکو خريد ليا جاتا ھے.
ٹيلنٹڈ 28 ٹيم کے پروپيگنڈھ سحر ميں ھم نے يے سوچنا بھی چھوڑ ديا ھے که سندھ ميں سالوں اور دھائيوں سے  کوئی بڑا فنکار، کوئی عابدا، کوئی منظورعلی خان ، کوئی استاد جمن، کوئی سرمد، کوئی يوسف بھی پيدا نھيں ھورھا، کوئی نيا شيخ اياز، کوئی امرجليل، کوئی استاد بخاری، کوئی نسيم کھرل بھي ميدان ميں نھيں آرھا، کوئی نبي بخش بلوچ، کوئی بوھيو، کوئی جويو، کوئی سوبھو، کوئی رشيد بھٹی، کوئی ابن حيات پونھر جيسا مفکر اور محقق بھی آغازِسفر ميں نھيں تو پھر يے تين چار سالوں سے اچانک ادبي ميلوں، سيميناروں اور محفل موسيقيوں کي بہار کيسے چھا گئی ہے؟ يے پيسے کہاں سے آ رہے ہيں؟ تھری لوگ بھوکے پياسے مر رہے ہيں تو پھر يے جھازوں مين فائيو اسٹار دورے کس کے ليے ھو رھے ھيں؟ کولھی، بھيل، اوڈ، باگڑی اور ميگھواڑ بيروزگاری اور بهوک سے خودکشياں کر رہے ہيں، قتل ہو رھے ھيں تو يے ہولی اور ديوالی کے سرکاری بنگلوں ميں بڑے بڑے کيک کاٹنے والے آخر کون ہيں؟ زمينيں تو ملک رياض اور ذوالفقارآباد کے حوالے ھو چکيں مگر ان کے خلاف کوئی خبر لگنے کے بجاءِ اخباروں اور چينلز پر ھر روز يے کروڑوں کے سرکاری اشتھار اچانک تيز رفتاری سے کيسے آنے لگ گئے ہيں؟
سوچا ہے يے کبھی ہم نے؟
سندھ لٹ رہا ہے، نواز شريف، عدليه، عمران خان، اسٹيبلشمينٹ اور عالمی طاقتوں کی کشمکش اور جنگ ميں، ان سب کو عارضی طور پر زرداري صاحب اور بلاول کا تعاون درکار ھے اور اس تعاون کی قيمت کے طور پر ھمارا سندھ، اس کے ديھاتوں اور شھروں ميں رھنے والے کروڑوں لوگوں کا مستقبل داو پر لگ چکا ھے،  سرکاری آفيسز اور حکمران محلوں ميں ھم سب ھماری غير موجودگی ميں صبح شام نيلام ھو رھے ھيں، ھم سب کا اور ھمارے بچوں کا سروائيول، ہماری عزتِ نفس اور ہمارے تمام وسائل سرِ بازار لُٹ اور بِک رھے ھيں، اور يے سب کچھ ہونے کے باوجود ہم ميں سے کچھ لوگ دو دو ٹکے کے مفادات اور ذاتی تعلقات کے خاطر فروخت ہو چکے ہيں، اور بقيه لوگوں کی ايک بڑی تعداد سب کو راضی رکھنے والی منافقانه پاليسی کی وجه سے مينيج کرکے خاموش کردی گئی ہے.
ويلڈن ٹی 28
مبارک زرداری صاحب۔

اياز لطيف پليجو